Search This Blog

Tuesday, November 9, 2010

میرے وطن کے مفلس بچے، مجھہ کو روز رلاتے ہیں۔۔۔
دن بھربھوکے رہتے ہیں، پھررات یونہی سو جاتے ہیں۔۔۔
ان کو پتا کیا کونسی گاڑی اندر کیسی دکھتی ہے۔۔۔
یہ تو بس گاڑی کے نیچے آ آ کر مر جاتے ہیں۔۔۔
میرے ملک کے یہ زردارے عیش کی نیند جو سوتے ہیں۔۔۔
کچھ ننگے بچے بھوک کی خاطر کوڑے میں گھس جاتے ہیں۔۔۔
کیسا ستم ہے رضوی بھی اس سسٹم کا اک حصہ ہے۔۔۔۔
یہ اور ایسے کئی خیال بس خون کے گھونٹ پلاتے ہیں۔۔۔

Tuesday, November 2, 2010

غم کی دکان درد کا ساماں لئے رہے۔۔۔
تم دل میں اپنے کون سا طوفاں لئے رہے۔۔۔
ہم تو تھے قربتوں کے بہانوں کی کھوج میں۔۔۔
تم ہم سے دور رہنے کا ارماں لئے رہے...

آنسو کا قطرہ

پیمبر دل کا ہے آنسو کا قطرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ آنکھوں میں بھلا کب ٹک سکے گا

جو باہر یہ نہیں آیا تو سمجھو۔۔۔
نہ حالِ دل کسی پر کھل سکے گا

Saturday, October 23, 2010

جوائنٹ فیملی۔۔۔ نار یا انار [حصہ اول]۔۔۔

چند دن پہلے کی بات ہے میرا اپنے ایک عزیز کےگھر جانا ہوا، میں ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا جب ان صاحب کی والدہ ان صاحب کے بیٹے یعنی اپنے پوتے کو پڑے پیار سے اپنی گود میں لئے بیٹھی تھیں، بچہ کچھ دیر سے رونا شروع ہوگیا تھا۔ دادی نے آواز لگائی۔۔۔ راحیلہ بیٹی [یعنی بچے کی ماں اور ان کی بہو] ذرا فیڈر میں صاف پانی تو بھر کر لے آنا، شائد منا پیاسا ہورہا ہے، لگتا ہے تم نے تو نہ جانے کب سے اسے پانی نہیں دیا۔۔۔ راحیلہ کمرے میں داخل ہوئی، تو اس کے ہاتھ میں فیڈر یا پانی کا کوئی اور برتن نہ پاکر راحیلہ کی ساس صاحبہ قدرے برھم ہو کر مگر میرا لحاظ کرتے ہوئے ذرا دھیمے لہجے میں مخاطب ہوئیں، تم پانی کیوں نہیں لائیں، دیکھ نہیں رہی ہو منا پیاس سے بلک رہا ہے، راحیلہ نے سمجھانے والے انداز میں کہا، امی ڈاکٹر نے منع کیا ہے کہ منے کو چھہ مہینے تک صرف ماں کے دودھ پرہی رکھنا ہے، اور اس کے علاوہ کچھہ اور نہیں دینا۔۔۔ یہ سن کر اماں اور آگ بگولہ ہوگئیں، اور کہنے لگیں یہ موئے ڈاکٹر کیا جانیں، پہلے بھی اس کی پیدائش پر تم نے اور ناصر نے مجھے اسے گھٹی بھی نہ پلانے دی تھی نہ جانے ننھی سی جان کے پیٹ میں کون کوں سے جراثیم رہ گئے ہوں گے، اب کیا یہ ڈاکٹر اور تم کل کے لونڈے لونڈیاں ہمیں بچے پالنا سکھاو گے۔ راحیلہ نے انتہائی احترام سے سمجھانے کی کوشش کی مگر ہر کوشش کے بعد اماں کا پارہ تھوڑا اور ہی بڑھ جاتا۔۔۔ بالآخر میں نے دیکھا کے راحیلہ خفت کے انداز میں روہانسی سی ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئی، مگر اماں اب بھی اس کی قابلیت پر شک کے حملے کرنے میں لگی ہوئی تھیں، اتنے میں اچانک مازیہ یعنی راحیلہ کی نند صاحبہ بھی آگئیں، انھیں اندازہ ہوچکا تھا کے کس کی ڈائری کھلی ہوئی ہے، بس انھون نے بھی زیادہ نہیں چلتے چلتے اتنا پھندنا لگا دیا، ارے اماں چھوڑو بھی تم کو تو پتا ہی ہے، بھابھی اپنے انگریزی پن کے آگے ہم لوگوں کو گھاس ہی کہاں ڈالتیں ہیں، آپ بھی بس فضول کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں٫
مجھے یقین ہوگیا تھا یہ بات اب یہاں تک رکے گی نہیں، ضرور کچھہ دیر بعد جب ناصر آئے گا تو ایک نیا محاظ کھلے گا۔ جس میں راحیلہ یعنی ناصر کی شریک حیات کے بارے میں شکایات کے نئے دفاتر رقم کئے جائیں گے۔
اس سارے معاملے میں ابھی تک مجھے راحیلہ کا بحیثیت ایک ماں، بہو اور بیوی تینوں ہی صورتوں میں کوئی دوش نظر نہیں آرہا تھا، اگر کسی کا دوش ہوتا بھی تو وہ شائد وہ ڈاکٹر ہوگا، جس نے راحیلہ کے بچے کی بہتر صحت کے لئے ایک مشورہ دے دیا تھا اور جسے راحیلہ ایک ماں کا دل رکھنے کی بدولت ماننے پر مجبور بھی تھی، اور یہ مشورہ کچھہ ایسا غلط بھی نہیں تھا کیونکہ موجودہ ریسرچ سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پہلے چھہ ماہ بچے کے لئے ماں کا دودھ ہی ہر چیز مہیا کرتا ہے اور کوئی بھی چیز اس کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ مگر جناب وہی ایک عمومی سوچ۔۔۔ یعنی اگر ہمارے معاشرے میں کمی ہے تو ان غوطہ خوروں کی کہ جو جب کسی مسئلے میں الجھیں تو معاملے کی تہہ میں غوطہ لگا کر اس کی سچائی کو جان سکیں۔ یہاں بھی یہی ہوتا دکھائی دے رہا تھا، کیوں کہ راحیلہ بہو تھی، اور وہ بھی اس معاشرے کی جس میں بہو کو قابل تذلیل سمجھنا اور سدا مطعون رکھنا محظ ایک عام سی بات ہے بلکہ بعض خاندانوں میں تو اسے بڑے فخر کی بات سمجھا جاتا ہے، اور گھر والوں کی جانب سے لڑکوں کو اس روئیے کی تلقین کی جاتی ہے۔

کچھہ دیر سوچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ شائد یہ اس جوائنٹ فیملی سسٹم کا قصور ہے، جس کی وجہ سے کسی شخص کی زندگی میں آنے والی ایک لڑکی جو اپنا گھر بار سب چھوڑ کر آتی ہے، اسے صرف اس شخص کے مزاج ہی کو سمجھنا یا اس شخص کی کچھہ عادتوں اور کچھہ چیزوں پر سمجھوتہ نہیں کرنا ہوتا بلکہ، اسے تو اس گھر میں موجود ہر فرد کے مزاج کو سمجھنا اور اس فرد کے مزاج اور خوشی کی خاطر اپنی بہت سی سوچوں اور خواہشوں کو قربان کرنا پڑتا ہے۔

بس اسی لمحے میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں یہ جاننے کی کوشش ضرور کروں گا کہ کیا واقعی میرا سوچنا سہی ہے کہ یہ جوائنٹ فیملی سسٹم ان تمام مسائل کی جڑ اور سرے سے غلط ہی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی سوچ اور ارادے کے تحت تھوڑی تحقیق کی اور چند تحفظات، محسوسات اور آراء کی روشنی میں کچھہ نقاط پر پہنچا جو آگے آنے والی سطور میں آپ کی فکر کی نظر کر رہا ہوں، امید ہے کسی بہتری کا پیش خیمہ ثابت ہونگے۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔

Sunday, October 17, 2010

پتا ہے میں کون ہوں؟؟

یار پتا نہیں بچپن سے جب بڑا ہوا تو کس نے مجھے فلسفی حضرات کی کتابیں پڑھنے کا شوق لگا دیا۔۔۔ ایک مشترک بات جو مجھے ان تمام فلسفیوں میں لگی وہ یہ کہ وہ سب کہ سب خود اپنے آپ کو پہچاننے سے انکاری تھے۔ شروع شروع میں تو یہ بات بڑی عجیب سی اور کبھی کبھی ان فلسفی حضرات کی کوئی بڑک ہی دکھائی دیتی تھی مگر وقت کے ساتھہ ساتھہ جب دنیا نے اپنے رنگ و روپ میرے سامنے عیاں کرنے شروع کیے، اور اس کے ساتھہ ساتھہ انسان کے مختلف روپ میرے سامنے آنا شروع ہوئے تب اندازہ ہوا کہ واقعی میرا اپنا آپ جو دراصل میرے اردگرد پھیلے ہزاروں انسانوں کا ہی ایک روپ ہے، اسے سمجھنا واقعی ایک مشکل کام ہے، بلکہ کئ بار تو یہ کام ناممکن دکھائ دیا۔ میں نے جتنا زیادہ اپنے آپ کو، اور پھر اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے اس انسانوں کے سمندر کے بیچ پھرتی مختلف اقسام کی حیات کو جاننے کی کوشش کی میں اتنا ہی مخمصے اور بے چینی کا شکار ہوتا چلا گیا۔ ویسے اگر کسی چھوٹے سے قصے سے انسان کے عجیب ہونے کو ثابت کرنا ہو تو مجھے شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا تحریر کیا ہوا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔
انھوں نے لکھا :
ایک لکڑھارا روزانہ ایک جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جایا کرتا تھا، اسی جنگل میں ایک اور بھی عجیب و غریب مخلوق رہتی تھی، جو بظاہر تو کچھ کچھ انسانوں جیسی دکھتی تھی مگر مزاج اور دیگر تمام چیزوں میں انسانوں سے بالکل مختلف تھی۔ اسی مخلوق میں سے ایک فرد، اس لکڑھارے کو اکثر دیکھا کرتا تھا اور اس کی ایک ایک حرکات و سکنات کو بغور مطالعہ کیا کرتا تھا۔
ایک روز وہ لکڑھارا لکڑیاں کاٹ چکا تو اسے بھوک کا احساس ہوا۔ اس نے پتھروں سے ایک چولھا بنایا، اور اس پر برتن رکھ کر پانی گرم کرنے لگا، پھر اپنے تھیلے سے نکال کر اس میں چند آلو ڈال دیئے۔ جب وہ آلو ابل گئے تو لکڑھارے نے انھیں باہر نکال لیا۔ قریب ہی اس جنگلی مخلوق سے تعلق رکھنےوالا وہ فرد بھی چھپا کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کے لکڑہارے نے آلو نکالنے کے بعد ان پر بھونکیں مارنا شروع کردیں ، اس مخلوق سے رہا نہیں گیا وہ سوچنے لگا آج میں اس سے پوچھ کر رہوں گا کہ وہ ان آلووں پر پھونکیں کیوں مار رہا ہے۔ اس نے اچانک سامنے آکر اپنا سوال لکڑہارےسے کر ہی دیا۔ لکڑہارا پہلے تو تھوڑا گھبرایا، مگر پھر جی مضبوط کر کے بولا۔۔۔ آلو گرم ہیں، انھیں ٹھنڈا کررہا ہوں۔ مخلوق نے پوچھا، پھونک مارنے سےچیز ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ لکڑہارے نے کہاں ہاں۔۔۔
وہ مخلوق لکڑہارے کے سامنے سے چلی گئی مگر اس کا تجسس ابھی برقرار تھا، اسی لئے وہ وہیں چھپ گیا۔ کھانا کھانے کے بعد لکڑہارے کو سردی کا احساس ہوا۔ اس نے پہلے ایک چادر اوڑھ لی ، مگر جب سردی کا احساس کچھ اور بڑھا تو اس نے اپنے ہاتھوں پر پھونکیں مارنا شروع کردیں۔ وہ مخلوق جو قریب میں ہی چھپی یہ سب دیکھ رہی تھی اس نے سوچا اب یہ اپنے ہاتھوں کو پھونک کیوں مار رہا ہے؟؟؟ کچھ سمجھ نہ آیا تو پھر رہا نا گیا، اور پھر پوچھنے کے لئے نکل آیا۔۔۔ "اب اپنے ہاتھوں کو کیوں پھونکیں مار رہے ہو، کیا یہ بھی بہت گرم ہو گئے ہیں؟؟؟ لکڑھارا بولا ارے نہیں یار، مجھے سردی لگ رہی ہے، میرے ہاتھ ٹھنڈے ہو رہے ہیں، انھیں پھونکوں سے گرم کر رہا ہوں۔۔۔ اس مخلوق نے جو یہ بات سنی تو بوکھلا گئی، باپ رے یہ کیسی مخلوق ہے، اسی سے ٹھنڈا کرتی ہے اسی سے گرم ۔۔۔ اس سے بچ کر ہی رہا جائے تو بھلا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔

Thursday, August 12, 2010

Younhi Sar-e-Raah Chaltay Chaltay…

Aaj subah eik dost ne Kaha...

"Ramzan ki woh Ronaq dikhai nahin deti yaar"

-- Jawab mein, mere moun se sirf itna nikla ke...

"Jiss mulk mein be gunahon ka be-daraigh khoon bahaya jaa raha ho,
jahan martay huay logon ko rozana ke hisaab se barhti hui mehngai, be rozgaari aur jaan ke khof se mazeed maara jaa raha ho,
jahan insani khoon paani se bhi ziyada arzaan ho jaaye,
jahan sailab se ghiray majboor aur lutay huay ghareebon, ke jin ke nanhay nanhay bachay pani ki eik boond ko taras rahay hon unhain eik eik Roti 25 - 25 rupay ki farokht ki jaa rahi ho,
jahan Musalman Allah ke mehman ban'nay ki saza mein jhoot aur faraib ke saharay 5 rupay ki cheeze 30 rupay mein baich rahay hon,
Jahan hukumraan apni ayyashi mein apnay faraiz bhool kar logon ki laashon par kharay hon...
Jahan jhoot, makkari, faraib, ghair insani aur ghair akhlaaqi tarz-e-amal aam ho,
Naam nehaad Islam ke thaikay daar Islam ke naam par tukron mein bat kar eik doosray ka khoon bahana jaayez qarar de raha hon,
Deen sirf zaati naam o namood aur mafaadaat ke husool ka zarya reh gaya ho,
Nanhay nanhay bachon ke saath Insaniat se giri hui zayadtian ki jaa rahi hon,
Aurat ki izzat eik mamooli khilonay se ziyada ahmiat ki haamil na reh gayee ho,
Insaniat Sharminda ho jiss mulk ke insaanon ko insan kehtay huay…

WAHAN RAMZAN KI RONAQ AUR REHMAT TAU KYA...
USS KA SAAYA AUR AHSAAS TAKK NAHI PHOHONCH SAKTA"...

Aey Quaid-e-Azam

Kyun di hamain azaadi ke hain itnay pareshan
Behtar tha woh angraiz ka danda, woh qalamdan

AYE QUAID-E-AZAM HAIYEH KAISATERA AHSAAN...

-------------------------------------------

Hakim hain jo iss waqt ke shaitan ban gaye
Insanon ke leader tau ab haiwan ban gaye
Mehkoom inn ki ronaq-e-dandaan ban gaye

kaise mein kahoon kaise hai jeeta yahan insan
AEY QUAID-E-AZAM HAI YEH KAISA TERA AHSAAN

--------------------------------------------

Mehngai ke iss bojh se insan mar gaye
Ramzan jo aaya tau Musalman mar gaye
Naslon ke ameen thay jo woh be-naam mar gaye

Ab kiss tarah baaqi rahay umeed ka damaan
AEY QUAID-E-AZAM HAI YEH KAISA TERA AHSAAN

--------------------------------------------

Hafiz hain yeh Quran ke par qatal karain hain
Maslak pay kabhi qaum pay yeh jang karain hain
Insanon ko dil khol kay ab tang karain hain

Kya yeh hi hai Islam jo tha aap ka armaan
AEY QUAID-E-AZAM HAI YEH KAISA TERA AHSAAN

--------------------------------------------

Majboor hai marghoob ghiza saheb-e-zarr ki
Mehfooz nahin izzatain abb apnay hi ghar ki
Hai mulk kya, logon ki yahan kiss ne fikar ki

Haath aaya jo jiskay wohi loota gaya har aan
AEY QUAID-E-AZAM HAI YEH KAISA TERA AHSAAN

---------------------------------------------

Qabil hi nahin thay kisi azaadi ke hum tau
Rehtay rahain ghairon ke nageen aadi hain hum tau
Na-qabil-e-bardasht si barbaadi hain hum tau

Is mulk ka iss qaum ka Allah hi nigahbaan
AEY QUAID-E-AZAM HAI YEH KAISA TERA AHSAAN

Tuesday, February 16, 2010

ديکھو تو کيا کيا حسين سے ہے

حسين نسل کي پاکيزگي کا ضامن ہے
حسب نسب سے ہے ليکن نسب حسين سے ہے

ميرے حسين کا سجدہ ہے لا الہ کي بقا
تمہارے رب کی قسم ہے کے رب حسين سے ہے

نماز و روزہ و حج و زکوة و خمس و جہاد
يھ سب ہے دين تو سن لو کہ سب حسين سے ہے

يہ دو بڑوں کے کرم کا تبادلہ سمجھو
حسين اس سے کبھی تھا وہ اب حسين سے ھے